کہاں تلاش کروں اب افق کہانی کا
کہاں تلاش کروں اب افق کہانی کا
مزاج کون سمجھتا ہے بہتے پانی کا
غروب ہوتے ہی سورج ابھرنے لگتا ہے
مرے وجود میں صحرا ضرر فشانی کا
وہ پیڑ جس میں فقط بے لباس شاخیں تھیں
اسی سے کام لیا میں نے سائبانی کا
کروں کہاں سے شروع اور کہاں پہ ختم کروں
سرا ہی ملتا نہیں وقت کی کہانی کا
مجھے گنائے گئے وصف میرے دشمن کے
عطا کیا گیا منصب قصیدہ خوانی کا
بہار سرخ قبا ہے چمن شرار بہ دوش
ہمارے شہر میں موسم ہے گل فشانی کا
قسم تھی ابر کو بھی مہرباں نہ ہونے کی
مجھے بھی کرنا تھا اظہار سخت جانی کا
قدم بڑھانا مرا وادیٔ تحیر میں
طلسم ٹوٹنا صحرائے بیکرانی کا
یہ کھڑکیاں یہ دریچے نہیں ہیں آنکھیں ہیں
مکان میں بھی ہے احساس بے مکانی کا
وہ گل مزاج جو مصروف گفتگو ہو کبھی
خیال آتا ہے دریاؤں کی روانی کا
وہ ترجمے کے لیے اس کے خال و خد نہ پڑھے
جسے ہنر نہیں آتا ہے ترجمانی کا
چلن سے ہو گیا باہر تو اور کیا کرتا
لباس اتار دیا میں نے بے زبانی کا
اتر کے حرف کے باطن میں دیکھنا یاورؔ
جو رقص دیکھنا ہو شعلۂ معانی کا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.