کہیں چراغ بجھانا پڑا کہ میں بھی ہوں
کہیں چراغ بجھانا پڑا کہ میں بھی ہوں
کہیں پہ خود کو جلانا پڑا کہ میں بھی ہوں
میرے گلے میں جو ڈالا میرے حریفوں نے
مجھے وہ ڈھول بجانا پڑا کہ میں بھی ہوں
تری عطا وہ تجسس ہے جس کے بڑھنے پر
تجھے بھی طور پہ آنا پڑا کہ میں بھی ہوں
وہ بار بار مجھے بھولتا تھا اور مجھے
یہ بار بار بتانا پڑا کہ میں بھی ہوں
سنا تھا آئیں گے محفل میں دل دریده لوگ
مجھے بھی زخم دکھانا پڑا کہ میں بھی ہوں
وہاں پہ خود کو دکھایا جہاں میں تھا ہی نہیں
کہیں یہ سچ بھی چھپانا پڑا کہ میں بھی ہوں
میں مانتا ہوں کہ خاموش ہے مگر وہ ہے
مجھے تو شور مچانا پڑا کہ میں بھی ہوں
ہوا نہیں تو بھی ثابت کروں گا ہونے کو
اگر یقین دلانا پڑا کہ میں بھی ہوں
حسنؔ ہے اتنا ضروری وجود کا اظہار
ہوا کو پیڑ ہلانا پڑا کہ میں بھی ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.