کہیں در سے کہیں دیوار سے ڈر لگتا ہے
کہیں در سے کہیں دیوار سے ڈر لگتا ہے
ایسے گھر میں ہوں کہ اظہار سے ڈر لگتا ہے
ایسی دیوانی ہے برسات نئے موسم کی
اس کی یلغار دھواں دھار سے ڈر لگتا ہے
تیز ہوتی ہیں ہوائیں تو پرندوں کو مرے
اپنی پرواز کے اقرار سے ڈر لگتا ہے
صبح کے در پہ بچھی دیکھی ہیں لاشیں اتنی
شام سے شام کے دربار سے ڈر لگتا ہے
جس کا پھیلاؤ قلم بند نہیں ہو سکتا
مجھ کو اس نقطۂ پرکار سے ڈر لگتا ہے
پھیلتا ہے مرے اندر جو اسی جنگل کے
ایک اک گوشۂ پر خار سے ڈر لگتا ہے
اب ٹپکتا ہے مرا خون اک اک انگلی سے
اب قلم اور قلم کار سے ڈر لگتا ہے
پوری سچائی کا منظر ہے مری آنکھوں میں
پوری سچائی کے کردار سے ڈر لگتا ہے
میں ہوں پروردہ کھلی راہ کھلے آنگن کا
بند کمروں کے سروکار سے ڈر لگتا ہے
کس طرح طے ہو علامت سے علامت کا سفر
ذمہ داری کے گراں بار سے ڈر لگتا ہے
جو شجر ہوتا ہے بھرپور ثمر ور وصفیؔ
اس کو ہر شاخ ثمر دار سے ڈر لگتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.