کہیں خلا میں کوئی روح چیختی ہوگی
کہیں خلا میں کوئی روح چیختی ہوگی
مرا خیال ہے اب شام ڈھل چکی ہوگی
پڑھا تو تھا کہیں میں نے کسی فقیر کا قول
بغاوتوں کی نگہباں سپردگی ہوگی
میں خود سے محو تکلم تھا بے حجابانہ
مجھے خبر نہ تھی دنیا بھی سن رہی ہوگی
مرے وجود کو آہنگ بھی اسی نے دیا
مرے عدم کا سبب بھی یہی صدی ہوگی
ابھی ابھی جو سر رہ گزر ملی تھی مجھے
وہ دھوپ چھانو کی مورت کہاں گئی ہوگی
سفینۂ وقت کسے اپنے منہ لگاتا ہے
ہمیں نے پھر کوئی بات ایسی ویسی کی ہوگی
حیات میں وہ مقام آ رہا ہے اب کہ جہاں
نہ اعتقاد معاون نہ آگہی ہوگی
عجیب خوف مسلط دل و دماغ پہ ہے
مرے سفر کی یہ شب شاید آخری ہوگی
یہ جنوری کا مہینہ بھی کٹ گیا حیرتؔ
خدا کے فضل سے کل ایک فروری ہوگی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.