کہیں شب کے کینوس پر نیا دن ابھر رہا ہے
کہیں شب کے کینوس پر نیا دن ابھر رہا ہے
مرا داغ نارسائی مرا نقش بن گیا ہے
میں چلا ہوں جنگلوں سے کسی باغ آتشیں تک
مرا زاد خار و خس ہے مرا رنگ اڑا ہوا ہے
جو ہے بزم ہم سے خالی وہ رہے گی غم سے خالی
جو جگہ خوشی سے پر ہے وہ ہمارا ہی خلا ہے
ابھی دیکھئے گا ہر سو مرا خاک بوس ہونا
کہ ہوائیں چل پڑی ہیں زر گل بکھر چلا ہے
دم رفتہ کی صفت ہے شب و روز میں نہ ہونا
جہاں وقت چل رہا ہے وہاں میرا کام کیا ہے
میں یکایک اپنے غم سے ترے غم میں آ گیا ہوں
ابھی دھوپ پڑ رہی تھی ابھی مینہ برس رہا ہے
مرا باعث نمو ہے ترے غم کی زہر ناکی
جو فضاؤں میں دھواں ہے وہ درخت کی غذا ہے
متحرک اس قدر ہے مرا گرد باد ہستی
کوئی دور سے جو دیکھے تو لگے رکا ہوا ہے
کہیں چاند کی کشش سے ہوا مد و جزر پیدا
کسی تاب رخ سے مجھ میں یہ تلاطم اٹھ رہا ہے
جسے آپ کہہ رہے ہیں کہ غلاف ہے ہوا کا
وہ زمیں کے چار جانب مری آہ کی فضا ہے
انہی دل کی سختیوں سے کبھی اشک ابل پڑیں گے
کہ جہاں پہاڑیاں ہوں وہیں چشمہ پھوٹتا ہے
کہیں مثل آئنہ ہیں متوازی کائناتیں
وہاں ایک آدمی ہے جو ہماری شکل کا ہے
وہ جو وسط سینہ میں ہے وہ فضا نہیں کہیں بھی
وہاں موسم اور کچھ ہے جہاں خط استوا ہے
میں پڑا ہوا ہوں خود میں کہیں بے وجود شاہدؔ
مری روح گم شدہ ہے مرا جسم لاپتہ ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.