کہیں وہ میری محبت میں گھل رہا ہی نہ ہو
کہیں وہ میری محبت میں گھل رہا ہی نہ ہو
خدا کرے اسے یہ تجربہ ہوا ہی نہ ہو
سپردگی مرا معیار تو نہیں لیکن
میں سوچتا ہوں ترے روپ میں خدا ہی نہ ہو
میں تجھ کو پا کے بھی کس شخص کی تلاش میں ہوں
مرے خیال میں کوئی ترے سوا ہی نہ ہو
وہ عذر کر کہ مرے دل کو بھی یقیں آئے
وہ گیت گا کہ جو میں نے کبھی سنا ہی نہ ہو
وہ بات کر جسے پھیلا کے میں غزل کہہ لوں
سناؤں شعر جو میں نے ابھی لکھا ہی نہ ہو
سحر کو دل کی طرف یہ دھواں سا کیسا ہے
کہیں یہ میرا دیا رات بھر جلا ہی نہ ہو
ہو کیسے جبر مشیت کو اس دعا کا لحاظ
جو ایک بار ملے پھر کبھی جدا ہی نہ ہو
یہ ابر و کشت کی دنیا میں کیسے ممکن ہے
کہ عمر بھر کی وفا کا کوئی صلہ ہی نہ ہو
مری نگاہ میں وہ پیڑ بھی ہے بد کردار
لدا ہوا ہو جو پھل سے مگر جھکا ہی نہ ہو
جو دشت دشت سے پھولوں کی بھیک مانگتا تھا
کہیں وہ توڑ کے کشکول مر گیا ہی نہ ہو
طلوع صبح نے چمکا دئے ہیں ابر کے چاک
ندیمؔ یہ مرا دامان مدعا ہی نہ ہو
- کتاب : Intekhab-e-Kulliyat-e-ahmed Nadeem Qasmi (Pg. 78)
- Author : Ahmed Nadeem Qasmi
- مطبع : Farid Book Depot (Pvt.) Ltd. (2004)
- اشاعت : 2004
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.