کہئے اچھا جو کسی سے تو برا لگتا ہے
کہئے اچھا جو کسی سے تو برا لگتا ہے
کلمۂ خیر نمک پاش ذرا لگتا ہے
میں نہیں جانتا کوئی یہاں کیا لگتا ہے
جانے کیوں شہر ترا شہر مرا لگتا ہے
کشت و خون ایسا کہ شاید نہ ہوا ہوگا کبھی
دشمن انسان کا انسان ہوا لگتا ہے
کون کس سے ہے فزوں خلق میں کس طرح کھلے
ہر ہنر مند یہاں خود سے سوا لگتا ہے
ہوش مند ایسے کہاں کے ہیں یہ ارباب نشاط
جی کا جنجال سب ان کا ہی دیا لگتا ہے
تاب گویائی رہے یا نہ رہے آج کے بعد
سن لو دو بول کہ کچھ درد تھما لگتا ہے
ایسا بکھرا ہوں کہ مشکل ہے سمٹنا میرا
میرے دل میں کوئی کانٹا سا چبھا لگتا ہے
جس کا جی چاہے وہ محفل کی ستائش کر لے
ایک پردہ سا نگاہوں پہ پڑا لگتا ہے
گردش پا ہے کہ بڑھنے نہیں دیتی آگے
تیرا حامدؔ تری گلیوں کا گدا لگتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.