کہو نہ یہ کہ محبت ہے تیرگی سے مجھے
کہو نہ یہ کہ محبت ہے تیرگی سے مجھے
ڈرا دیا ہے پتنگوں نے روشنی سے مجھے
سفینہ شوق کا اب کے جو ڈوب کر ابھرا
نکال لے گیا دریائے بے خودی سے مجھے
ہے میری آنکھ میں اب تک وہی سفر کا غبار
ملا جو راہ میں صحرائے آگہی سے مجھے
خرد انہی سے بناتی ہے رہبری کا مزاج
یہ تجربے جو میسر ہیں گمرہی سے مجھے
ابھی تو پاؤں سے کانٹے نکالتا ہوں میں
ابھی نکال نہ گلزار زندگی سے مجھے
زبان حال سے کہتا ہے ناز عشوہ گری
حیا چھپا نہ سکی چشم مظہری سے مجھے
برائے داد سخن کاسۂ سوال ہو دل
خدا بچائے جمیلؔ اس گداگری سے مجھے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.