کہوں کس سے کہ دھندلائے ہوئے ہیں
جو منظر آنکھ پر چھائے ہوئے ہیں
کنارے سے کنارے تک ہے وحشت
ندی کے راگ گھبرائے ہوئے ہیں
کچھ ایسے خواب جن سے ڈر رہا ہوں
گزشتہ رات سے آئے ہوئے ہیں
کبھی تو بھی ہماری سمت آتا
تری جانب تو ہم آئے ہوئے ہیں
خلوص دل سہی تیرا تبسم
مگر ہم چوٹ تو کھائے ہوئے ہیں
نجانے رات کون آئے گا چھت پر
ستارے شام سے آئے ہوئے ہیں
مقدس ہم صحیفے ہیں جو شاید
ہزاروں بار جھٹلائے ہوئے ہیں
ہمارا ذکر ہو تو جان لیجو
تری محفل میں ہم آئے ہوئے ہیں
بڑے دانا ہیں جی دشمن ہمارے
مگر ضد پر ابھی آئے ہوئے ہیں
رقیبوں پر بھی ہے نظر عنایت
کرم ہم پر بھی فرمائے ہوئے ہیں
ہمارا بن کے تو بھی تو رہا تھا
ترے ہم بھی کبھی ہائے ہوئے ہیں
سکون و امن وقتی ہی رہا ہے
مسلسل خوف کے سائے ہوئے ہیں
دماغی عارضہ لاحق ہے تم کو
کئی دل ہیں جو گھبرائے ہوئے ہیں
ہمیں عارفؔ گلوں سے نسبتیں تھیں
مگر کانٹوں میں گنوائے ہوئے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.