کیفیت ایسی ہے نگہ مست خواب میں
کیفیت ایسی ہے نگہ مست خواب میں
زاہد بھی دیکھ لے تو نہاوے شراب میں
کیوں کیا کہیں گے حضرت یوسف جواب میں
چوری کیا ہے دل جو زلیخا کا خواب میں
ہونٹوں کو تر تو کرتے ہو قدح شراب میں
ایسا نہ ہو کہ آگ لگے آفتاب میں
ہے جوش گریہ اب بھی وہ چشم پر آب میں
دریا کے دم کو بند کیا ہے حباب میں
لکھا ہے عاشقوں نے یہ دل کی کتاب میں
ہیں پند منع سننے محبت کے باب میں
چیں بر جبیں ہو کس کا پڑا عکس آب میں
اس طرح موج بحر جو ہے پیچ و تاب میں
بو اور مزہ وہ ہے ترے منہ کے لعاب میں
گویا گھلا ہے قند مکرر گلاب میں
شاید کہ عزم کوچۂ جاناں ہے دل کو آج
بھیجا ہے پہلے جان کو جو پا تراب میں
گردش ہے اس کی چشم کو ہستی میں یا کہیں
نرگس کا پھول تیر رہا ہے شراب میں
اپنا تو وقت یاد کرو تم نے شیخ جی
کیا کیا مزے اڑائے ہیں عہد شباب میں
سنتا ہے ہم نشیں نگہ ناز بے طرح
گھر کر گئی ہے اس دل خانہ خراب میں
چیچک کے داغ اس رخ تاباں پہ دیکھ لو
تارے کھلے نہ دیکھے ہوں گر آفتاب میں
مت غسل دیجو دست حنائی کا ہوں شہید
نہلا چکا ہے دشنہ مجھے خون ناب میں
لے چکھ تو شوخئ لب و نمکینیٔ ذقن
کیا خوب نون مرچ ہیں دل کے کباب میں
اس کی سی کچھ یہیں نہیں کہتے ہیں داد گر
سب مل کے واں بھی چیند کریں گے حساب میں
اب یاں سے کعبے خاک اڑانے چلے ہیں شیخ
بہر ثواب خاک پڑے اس ثواب میں
باتیں سنا سنا کے ڈرائیں گے اپنے ساتھ
زاہد نہ سانیو تو کسی کو عذاب میں
ملتا نہیں کچھ اور گر اے چارہ گر تجھے
لاچار کچھ تو چین پڑے اضطراب میں
زخموں پہ دل کے سودۂ الماس ہی چھڑک
حل کر کے ہو سو ہو نمک و مشک ناب میں
ضبط فغاں میں ڈر ہے مجھے عیشؔ دل کہیں
سینے سے باہر آ نہ پڑے اضطراب میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.