کیسے کیسے ستم اٹھائے ہیں
دلچسپ معلومات
(4اکتوبر 1961ء )
کیسے کیسے ستم اٹھائے ہیں
زخم کھا کر بھی مسکرائے ہیں
اشک آنکھوں میں ڈبڈبائے ہیں
یا ستارے سے جھلملائے ہیں
آپ جب بھی چمن میں آئے ہیں
گل تو گل خار مسکرائے ہیں
کیوں نہ جانے یہ دل میں آتا ہے
آپ اپنے نہیں پرائے ہیں
کوئی اپنا مزاج داں نہ ملا
ہم نے خود اپنے ناز اٹھائے ہیں
جنہیں خاموشیوں نے دہرایا
ہم نے وہ گیت گنگنائے ہیں
دیدۂ نیم خواب شاہد ہے
آپ نیندیں چرا کے لائے ہیں
ان پر اپنا گمان ہوتا ہے
دیدہ و دل میں یوں سمائے ہیں
پچھلی باتوں کا ذکر لا حاصل
آج انساں کہاں ہیں سائے ہیں
روشنی لی نہ مستعار کبھی
خون دل سے دئے جلائے ہیں
ختم ان پر ہے گفتگو ان کی
کچھ اشارے ہیں کچھ کنائے ہیں
ہم نے رنگینیٔ تخیل سے
کیسے کیسے چمن کھلائے ہیں
رحمت حق کو جوش آیا ہے
جب بھی دست دعا اٹھائے ہیں
اے غم آرزو ترے ہاتھوں
دل نے کیا کیا فریب کھائے ہیں
آپ روٹھیں مگر خیال رہے
ہم نے روٹھے ہوئے منائے ہیں
خیر مقدم کیا ہے یوں طالبؔ
ان کے قدموں میں دل بچھائے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.