کل رات صحن دل میں تھا ہرجائیوں کا رقص
کل رات صحن دل میں تھا ہرجائیوں کا رقص
تھی وحشتوں کی تھاپ پچھل پائیوں کا رقص
منظوم ہو رہی تھی خموشی بہ فیض ہجر
تھا ذہن میں حروف کی پرچھائیوں کا رقص
اس کی خوشی مناؤں یا افسوس نہ کروں
ہے شہرتوں کے ساز پہ رسوائیوں کا رقص
یہ وہ زمانہ ہے نہیں جس کی کوئی مثال
یاں بھائیوں کے قتل پہ ہے بھائیوں کا رقص
شب بھر ادائے حسن کو ٹک دیکھتا رہا
میں اس خرام ناز کی انگڑائیوں کا رقص
اندر تھا میرے وصل کا بستر لگا ہوا
کمرے میں تھک کے چور تھا تنہائیوں کا رقص
میں محو گفتگو تھا تمہاری نظر کے ساتھ
اور میرے ارد گرد تھا بینائیوں کا رقص
کچھ بات تھی جو بزم میں تنہا کھڑا تھا میں
حالانکہ چار سو تھا شناسائیوں کا رقص
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.