کلیاں تلاش کرتے ہوئے خار تک گئے
کلیاں تلاش کرتے ہوئے خار تک گئے
اپنے عمل سے منزل دشوار تک گئے
تاریکیوں سے نور کی دیوار تک گئے
زلفیں سنوارتے ہوئے رخسار تک گئے
نا چاہتے ہوئے بھی عیادت کے واسطے
درویش بن کے روز در یار تک گئے
سمجھی نہ کائنات محبت کے پیچ و خم
پردا نشین لوگ بھی بازار تک گئے
قاتل سے یہ ثبوت مٹایا نہ جا سکا
قطرے ہمارے خون کے دربار تک گئے
بیساکھیاں تراشنے والوں سے پوچھئے
کتنوں کے گھر اجاڑ کے اشجار تک گئے
ایسا نہیں کے مصلحتاً چپ رہے سبھی
کچھ حق پرست لوگ شہریار تک گئے
مسرور ہو گیا وہ مرا سر اتار کر
قاتل کے ہاتھ کب مری دستار تک گئے
جذبہ ہمارا رتی برابر نہ کم ہوا
یہ اور بات جنگ میں ہم ہار تک گئے
مجنوں کی کیا بساط ہے محورؔ کے سامنے
صحرا میں بس گئے تو وہ ہم دار تک گئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.