کمخواب تھے اوروں کو جگاتے ہوئے گزرے
کمخواب تھے اوروں کو جگاتے ہوئے گزرے
ہم وقت سحر ڈھول بجاتے ہوئے گزرے
اک جادۂ پر خار تھی دشوار تھی دنیا
عشاق مگر جھومتے گاتے ہوئے گزرے
ہر ناز صبا رشک چمن حسن مجسم
پتھرائے اگر آنکھ ملاتے ہوئے گزرے
اک زیست کی وادی تھی مگر یاد نہیں ہے
آتے ہوئے گزرے تھے کہ جاتے ہوئے گزرے
پہلے کیا تخلیق اسے آگ سے ہم نے
پھر ہم ہی اسے ہاتھ لگاتے ہوئے گزرے
سر تال کو اشکال کو الفاظ میں ڈھالا
امکان کو امکان بناتے ہوئے گزرے
وہ جان سخن گوش بر آواز نہیں تھا
دیوار کو اشعار سناتے ہوئے گزرے
کچھ خوگر دنیا تو کسی کو غم یزداں
درویش مگر ہاتھ چھڑاتے ہوئے گزرے
شرمندۂ وسعت ہیں زمینیں بھی خلا بھی
در دشت و دمن خاک اڑاتے ہوئے گزرے
منہ رکھ کے ترے منہ پہ تجھے سانس پلائی
ہم جاں سے تری جان بچاتے ہوئے گزرے
ہم بھول بھی جائیں تو ہمیں ڈھونڈ سکے تو
رستے میں ترے پھول گراتے ہوئے گزرے
اس چشم نمک بار کی ویران گلی سے
بارش میں لگاتار نہاتے ہوئے گزرے
لوگوں نے کیا دور جنوں غرق عبادت
آکاشؔ میاں کھیلتے کھاتے ہوئے گزرے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.