کن انکھیوں پر سوچ پرندہ بیٹھا تھا
کن انکھیوں پر سوچ پرندہ بیٹھا تھا
میں نے چہرہ آئینے میں دیکھا تھا
لفظ نہ جملے اور نہ ہی کوئی مفہوم
اس نے خط لکھا لیکن کیا لکھا تھا
میری رام کہانی سب نے پوچھی تھی
میرے دل کا درد نہ کوئی جانا تھا
کیا تجدید مراسم کا امکان نہیں
میں معصوم تھا میں نے اس سے پوچھا تھا
قوس قزح کی چھوٹ بھی پھیکی پڑتی تھی
اس پر عشق کا رنگ ہی گہرا چڑھتا تھا
جسموں میں حائل تھی کپڑوں کی دیوار
ان کے دلوں میں فاصلہ لمبا چوڑا تھا
سب تہوار ہی ہم نے ساتھ منائے تھے
فصل رسائی میں وہ ہم سے بچھڑا تھا
تم نے ہمارے زخموں پر مرہم رکھا
جب کہ وجود جان ہمارا رستا تھا
سود اٹھا کے ڈالا اپنے کھاتے میں
ایرجؔ تیرے نام زیاں کا سودا تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.