کرب میں ڈوبے ہوئے خوں ریز منظر رکھ دئیے
کرب میں ڈوبے ہوئے خوں ریز منظر رکھ دئیے
شان حیدر بیباک امروہوی
MORE BYشان حیدر بیباک امروہوی
کرب میں ڈوبے ہوئے خوں ریز منظر رکھ دئیے
کس نے میری خشک آنکھوں میں سمندر رکھ دئیے
دیکھ کر شوق شہادت بر سر مقتل مرا
قاتلوں نے ہاتھ سے گھبرا کے خنجر رکھ دئیے
تیرگی فرقہ پرستی کی بڑھی تب ظلم نے
روشنی کے واسطے جلتے ہوئے گھر رکھ دئیے
چھوڑ کر سب کچھ چلا تھا جانب منزل جنوں
کیوں خرد نے راہ میں رشتوں کے پتھر رکھ دئیے
وہ بڑے معصوم لفظوں میں کیا کرتا تھا بات
کس نے اس کے رس بھرے لہجے میں نشتر رکھ دئیے
میں نے سوچا تھا مٹا دوں یاد ماضی کے نقوش
نیند نے آنکھوں میں پھر یادوں کے پیکر رکھ دئیے
لغزشوں میں یوں تو دونوں تھے برابر کے شریک
اس نے سب الزام لیکن میرے سر پر رکھ دئیے
میں نے بس اتنا کہا تھا آپ کیوں ناراض ہیں
اس نے میرے روبرو شکوؤں کے دفتر رکھ دئیے
مے کشی کے واسطے ببیاکؔ سوچا تک نہ تھا
اس نے میرے سامنے آنکھوں کے ساغر رکھ دئیے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.