کرے گا اپنی باتوں پر ملال آہستہ آہستہ
کرے گا اپنی باتوں پر ملال آہستہ آہستہ
پڑے گا روشنی کا اس کو کال آہستہ آہستہ
نہ ان کو کوئی عجلت ہے نہ کوئی کار دنیا ہے
دکھا اپنے فقیروں کو جمال آہستہ آہستہ
مخالف صف میں میرا یار مجھ سے لڑنے آیا ہے
اٹھاؤں گا مگر اپنی میں ڈھال آہستہ آہستہ
کبھی یکجا نہیں ہوتے دلوں کو توڑنے والے
بدل جاتے ہیں ان کے خد و خال آہستہ آہستہ
میں اپنے ہجر کو نگراں بنا کر لوٹ آیا تھا
بنا ہے مکڑیوں نے زرد جال آہستہ آہستہ
یہ میں لوگوں کے دل میں گھر جو کر لیتا ہوں عجلت میں
ہوا ہے مجھ کو حاصل یہ کمال آہستہ آہستہ
یہ کار عشق ہے اور اس میں سب گھر بار لٹتا ہے
بچھڑتے ہیں ادھر اہل و عیال آہستہ آہستہ
مرے گھر میں غموں کی آج پھر بارات آئے گی
کریں گی دھڑکنیں امشب دھمال آہستہ آہستہ
مری رفتار کی کوئی یہاں پہ حد نہ ہوتی تھی
کیا ہے عشق نے مجھ کو نڈھال آہستہ آہستہ
زباں کے زخم مستحسنؔ کسی کو بھولتے کب ہیں
اترتی ہے درختوں سے یہ چھال آہستہ آہستہ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.