کریں ہیں نوحہ عبث دیکھ دوستاں تنہا
کریں ہیں نوحہ عبث دیکھ دوستاں تنہا
عدم سے آئے تھے تنہا چلے وہاں تنہا
نسیم صبح ہے لگ چلنے میں ہر ایک یہاں
نکلیے گھر سے نہ جوں مہر مہرباں تنہا
کیا ہے شوق نے پروانہ شمع ایمن کا
طلب میں اس کی ہوں شب گرد جاں فشاں تنہا
نکلتی کاش نہ بیضے سے عندلیب اپنے
ہوئی اسیر قفس بھی تو آہ یاں تنہا
ہمیں تو عکس بھی اپنا نظر نہیں آتا
وہ تیرہ بخت ہیں ہم زیر آسماں تنہا
غبار ہو کے مرا گرد و باد کس کے لیے
پھرے ہے دشت میں ہر سو دواں دواں تنہا
وہ اپنے سائے کے ہوتے حجاب کرتا ہے
خط اس کو دیجیو قاصد ملے جہاں تنہا
ہمیں بھی زیر فلک اپنی جان بھاری ہے
حباب ہی نہیں ہستی سے سرگراں تنہا
پھریں ہیں بال فشاں بلبلوں کے جھنڈ کے جھنڈ
بھلی لگے ہے کسے سیر بوستاں تنہا
صبا ملے کہیں گر قافلہ تو کیجو خبر
بھٹک بھٹک کوئی روئے ہے کر فغاں تنہا
نہیں شریک برے وقت کا کسی کے کوئی
پڑا کراہے ہے راتوں یہ ناتواں تنہا
ہوا نصیب یہ صحرائے بیکسی اے وائے
فلک نے لا مجھے وارد کیا کہاں تنہا
نکل گیا ترے ہاتھوں کہاں ہے یاں فدویؔ
وہ ہووے گا کسی جنگل میں خستہ جاں تنہا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.