کشش تو اب بھی غضب کی ہے نازنینوں میں
کشش تو اب بھی غضب کی ہے نازنینوں میں
مگر وہ چاند چمکتا نہیں جبینوں میں
یہ سب کے چہروں میں یکسانیت سی کیسی ہے
حسین تر کوئی جچتا نہیں حسینوں میں
جو میرے ذہن میں تھی سبزہ زار خواب میں تھی
کہاں وہ فصل اگائی گئی زمینوں میں
شعور عمر سے افزوں ہوئی ہے عمر شعور
ہمارے سال گزرنے لگے مہینوں میں
زباں سے روز میں تائید اذان کرتا ہوں
چھپے ہیں بت بھی مگر میری آستینوں میں
نمائشیں نہ فروعی تکلفات یہاں
کہاں تم آ گئے ہم بوریا نشینوں میں
بجز تمہارے نہیں کوئی خانقاہی اب
میں کس کا نام لکھوں اپنے نکتہ چینوں میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.