کشتی رواں دواں تھی سمندر کھلا ہوا
کشتی رواں دواں تھی سمندر کھلا ہوا
آنکھوں میں بس گیا ہے وہ منظر کھلا ہوا
بستر تھا ایک جسم تھے دو خواہشیں ہزار
دونوں کے درمیان تھا خنجر کھلا ہوا
الجھا ہی جا رہا ہوں میں گلیوں کے جال میں
کب سے ہے انتظار میں اک گھر کھلا ہوا
اک حرف مدعا تھا سو وہ بھی دبی زبان
الزام دے رہا ہے ستم گر کھلا ہوا
صحرا نورد شہر کی سڑکوں پر آ گئے
چہرے پہ گرد آبلہ پا سر کھلا ہوا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.