کشتیاں کاغذوں کی بنانے لگے
کشتیاں کاغذوں کی بنانے لگے
بیتے منظر مجھے یاد آنے لگے
وہ بہانے سے گھر آنے جانے لگے
چپکے چپکے مرا دل چرانے لگے
دوپہر دن میں کیا رات ہو جائے گی
رخ پہ وہ اپنی زلفیں گرانے لگے
بند پنجڑے میں دیکھا جو طوطے کو کل
وہ غلامی کے دن یاد آنے لگے
میری ماں کی دعائیں پتہ بن گئیں
راہ میں جب قدم لڑکھڑانے لگے
شعر گوئی کا دعویٰ ہے ساحلؔ جنہیں
میری غزلیں مجھی کو سنانے لگے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.