کٹ چکا جنگل مگر ضد پر اڑی ہے
کٹ چکا جنگل مگر ضد پر اڑی ہے
ایک چڑیا گھونسلہ لے کر کھڑی ہے
ایسے ادھڑا ہے بدن سوکھی ندی کا
جیسے کوئی لاش لا وارث پڑی ہے
کھو دیا سب تاپ بادل سے لپٹ کر
دھوپ بھی کس کی محبت میں پڑی ہے
اس محل کے سامنے کیوں رک گئے تم
سو قدم آگے وہ اپنی جھونپڑی ہے
یاد رکھ ہم ایک چھاتے کے تلے ہیں
بھول جا رم جھم ہے اوپر یا جھڑی ہے
بیندھ رکھا تھا تمہارا چتر جس نے
کیل وہ دیوار میں اب بھی گڑی ہے
آدھی آبادی ہے بھڑکی ہم ندی سی
اب کنارے ڈوب جانے کی گھڑی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.