کون دروازہ کھلا رکھتا برائے انتظار
کون دروازہ کھلا رکھتا برائے انتظار
رات گہری ہو چلی رہرو عبث ہے کل پکار
آنکھ جل جاتی ہے لیکن خواب جھلساتی نہیں
سرمئی ڈھیری کی خنکی سے جنم لے گی بہار
کون دشت کرب کے آزار کا عادی ہوا
کون جا پایا ہے بحر درد کی موجوں کے پار
رنج میں لپٹا رہا مہتاب کا غمگیں بدن
رات ٹیرس پر کوئی سجدے میں رویا زار زار
اب کسی شکوے گلے کی کوئی گنجائش نہیں
آپ اپنے ہاتھ سے سونپا تھا اس کو اختیار
کیفیت کی پوچھ مت ہمدم کہ لطف قرب سے
آج کچھ بڑھ کر ہے اپنے اندروں بہتا خمار
شاہزادی روزن زنداں سے رہ تکتی رہی
شہر کی رخشندگی میں کھو گیا اک شہسوار
اک نظر کا معجزہ میرے قلم کا سب ہنر
اک سنہری دھیان سے برسی ہے نظموں کی پھوار
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.