کون گزرا تھا محراب جاں سے ابھی خامشی خامشی شور بھرتا ہوا
کون گزرا تھا محراب جاں سے ابھی خامشی خامشی شور بھرتا ہوا
دھند میں کوئی شے جوں دمکتی ہوئی اک بدن سا بدن سے ابھرتا ہوا
صرف کرتی ہوئی جیسے ساعت کوئی لمحہ کوئی فراموش کرتا ہوا
پھر نہ جانے کہاں ٹوٹ کر جا گرا ایک سایہ سروں سے گزرتا ہوا
ایک عمر گریزاں کی مہلت بہت پھیلتا ہی گیا میں افق تا افق
میرے باطن کو چھوتی ہوئی وہ نگہ اور میں چاروں طرف پاؤں دھرتا ہوا
یہ جو اڑتی ہوئی ساعت خواب ہے کتنی محسوس ہے کتنی نایاب ہے
پھول پلکوں سے چنتی ہوئی روشنی اور میں خوشبوئیں تحریر کرتا ہوا
میرے بس میں تھے سارے زمان و مکاں لیک میں دیکھتا رہ گیا این و آں
چل دیا لے کے چٹکی میں کوئی زمیں آسماں آسماں گرد کرتا ہوا
اپنی موجودگی سے تھا میں بے خبر دیکھتا کیا ہوں ایسے میں یک دم ادھر
قطع کرتی ہوئی شب کے پہلو میں اک آدمی ٹوٹتا اور بکھرتا ہوا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.