کون ہے جو یہاں مہمان ہوا چاہتا ہے
کون ہے جو یہاں مہمان ہوا چاہتا ہے
خانۂ دل مرا ویران ہوا چاہتا ہے
رنگ پہ رنگ بدلتی ہے یہ دنیا کیسے
کیا سے کیا درد کا عنوان ہوا چاہتا ہے
ان کی ہجرت پہ فقط یہ دل ناداں ہی نہیں
شہر کا شہر ہی سنسان ہوا چاہتا ہے
دیکھ تو ایک نظر اس کو یہ تیرا بسمل
اب تری راہ میں قربان ہوا چاہتا ہے
تجھ پہ حیدرؔ نے ہیں اس درجہ رقم کی غزلیں
اب تو یہ صاحب دیوان ہوا چاہتا ہے
مر گیا آج وہ دیوانہ سا شاعر لڑکا
لے ترے شہر میں اعلان ہوا چاہتا ہے
آپ کا ہجر میں کچھ بھی نہیں جانا لیکن
میرا ہر پل یہاں نقصان ہوا چاہتا ہے
چھوڑ دو مجھ کو مرے حال پہ لوگو جاؤ
اب مجھے عشق کا عرفان ہوا چاہتا ہے
اک معمہ ہے جو بالائے خرد ہے حیدرؔ
آدمی حضرت انسان ہوا چاہتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.