کون جانے کہ تخیل میں ہیں پیکر کتنے
کون جانے کہ تخیل میں ہیں پیکر کتنے
بت تراشے گا ابھی اور یہ آذر کتنے
ہم نے اک قطرہ کا احسان گوارا نہ کیا
پی گئے لوگ خدا جانے سمندر کتنے
یاد آتے ہی تری آئے خیالوں کے ہجوم
ایک پیکر سے تراشے گئے پیکر کتنے
ہو وہ مذہب کا لبادہ کہ سیاست کا لباس
لوگ پھرتے ہیں یہاں بھیس بدل کر کتنے
شہر پھولوں کا جسے ہم نے سمجھ رکھا تھا
ہم پہ پھینکے گئے اس شہر میں پتھر کتنے
جو کچھ ان آنکھوں نے دیکھا ہے وہی کیا کم تھا
اور دیکھیں گے ابھی دیکھیے منظر کتنے
ایک ساقی کے نہ ہونے سے ہے ماحول اداس
آج توڑے گئے میخانے میں ساغر کتنے
بجلیاں گرتیں چمن پر تو کوئی بات نہ تھی
آتش گل نے جلائے ہیں یہاں گھر کتنے
دل وہ قطرہ ہے کہ ہستی نہیں جس کی محدود
اسی قطرے میں ہیں پوشیدہ سمندر کتنے
ایک تم ہی نہیں دنیائے ادب میں جوہرؔ
ہیں اسی بحر میں کیا جانئے گوہر کتنے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.