کون کہتا ہے کہ تیری چشم حیرانی میں ہے
کون کہتا ہے کہ تیری چشم حیرانی میں ہے
وسعت صحرا تو میری چاک دامانی میں ہے
تو نہیں ملتا نہ مل اس کا نہیں شکوہ مجھے
جو خرابی ہے وہ تیری زود پیمانی میں ہے
ساری جاگیریں یہیں سے بانٹتا رہتا ہوں میں
بادشاہی کا مزہ تو دل کی سلطانی میں ہے
ہے جو پروانہ تو شب بھر شعلۂ روشن میں رہ
زندگی تیری اسی شمع شبستانی میں ہے
آنکھ کیا سیکھے گی اس کے سامنے آئے بغیر
حرف حیرت کا سبق تو آئنہ خوانی میں ہے
بیٹھ جانے دے اسے تو میں نظر آؤں تجھے
میرا پیکر بھی اسی گرد بیابانی میں ہے
ذکر بس میرا حکایت نامۂ وحشت میں ہے
موج بس میری یم صحرا کی طغیانی میں ہے
لطف جو پیرایۂ گنگ و جمن میں ہے انیسؔ
رنگ چیں میں ہے نہ وہ سبک خراسانی میں ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.