کھا لیتے ہیں غصے میں تلوار کٹاری کیا
کھا لیتے ہیں غصے میں تلوار کٹاری کیا
ہم لوگ ہیں سودائی اوقات ہماری کیا
بجلی سے لپٹ کر ہم بھسمنت ہوئے آخر
اس کو ترے دامن کی سمجھے تھے کناری کیا
جوں شمع سر شب سے میں رونے کو بیٹھا ہوں
تا آخر شب دیکھوں دکھلائے یہ زاری کیا
گھبرائی جو پھرتی ہے اس طور صبا ہر سو
آتی ہے گلستاں کو اس گل کی سواری کیا
رونا مری آنکھوں سے جب تک کہ نہ سیکھے گا
جا بیٹھ تو رووے گا اے ابر بہاری کیا
سوتے سے تو اٹھنے دو ٹک اس کو سحر ہوتے
دیکھو گے کہ مچلے گی وہ چشم خماری کیا
نرگس کی خجل آنکھیں اتنی تو نہ تھیں گاہے
اس چشم مفتن سے بازی کوئی ہاری کیا
اوقات مجرد کی کس طرح بسر ہووے
جنگل ہے یہ بکتی ہے یاں نان نہاری کیا
اے مصحفیؔ میں اس کو جی جان سے گو چاہا
آخر کو ہوا حاصل جز ذلت و خواری کیا
- کتاب : kulliyat-e-mas.hafii(haftum) (Pg. 17)
- Author : ghulaam hamdaanii mashafii
- مطبع : qaumi council baraye -farogh urdu (2006)
- اشاعت : 2006
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.