خاک بستہ ہیں تہ خاک سے باہر نہ ہوئے
خاک بستہ ہیں تہ خاک سے باہر نہ ہوئے
جسم اپنے کبھی پوشاک سے باہر نہ ہوئے
جرأت بازوئے پیراک سے باہر نہ ہوئے
یہ سمندر مری املاک سے باہر نہ ہوئے
ذہن خفتہ نے ہمہ وقت سعی کی لیکن
فکر کے زاویے ادراک سے باہر نہ ہوئے
زخم دیتی ہے نیا روز مجھے بھوک مری
یہ مصائب مری خوراک سے باہر نہ ہوئے
زیر تکمیل ہیں دست فن کوزہ گر میں
ہم وہ ایجاد ہیں جو چاک سے باہر نہ ہوئے
شاخ پر ابھرے ہیں تابندہ گلوں کی صورت
جو شرارے خس و خاشاک سے باہر نہ ہوئے
کام آئی نہ کوئی وقت کی چارہ جوئی
زخم کہنہ دل صد چاک سے باہر نہ ہوئے
محو پرواز ہیں صدیوں سے یوں ہی شمس و قمر
یہ پرندے حد افلاک سے باہر نہ ہوئے
مصلحت کوش ہوئے وقت کے چہرے سالمؔ
عکس آئینۂ بے باک سے باہر نہ ہوئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.