خاک سمجھے گا وہ نازکی کانچ کی
جس نے پائی نہیں زندگی کانچ کی
فصل دیکھی ہے ہم نے کھڑی کانچ کی
پوچھیے ہم سے خوش قامتی کانچ کی
یہ جو آنکھیں ہماری ہیں ان ہی کے بیچ
اور اک آنکھ ہے تیسری کانچ کی
شاعری کل بھی تھی کانچ ہے آج بھی
ہر فلاطوں نے گو کی نفی کانچ کی
میرے اطراف سب کانچ ہی کانچ ہے
پھر بھی لگتی ہے کچھ کچھ کمی کانچ کی
سنتے ہیں بخش دیتی ہے ٹھنڈک بڑی
تپتے صحرا کو اکثر نمی کانچ کی
چھین کر لاٹھی اندھے کی کس نے یہاں
ہاتھ اس کے تھما دی چھڑی کانچ کی
میرے اظہار کو بھی وہ اعجاز دے
دینے والے مجھے آگہی کانچ کی
دی ہے وصفیؔ نے پھر حیدرآباد سے
اک علامت غزل کو نئی کانچ کی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.