خاک تو ہم بھی ہر اک دشت کی چھانے ہوئے ہیں
خاک تو ہم بھی ہر اک دشت کی چھانے ہوئے ہیں
کچھ نیا کرنے کی کوشش میں پرانے ہوئے ہیں
سبز موسم کا پتہ جن سے ملا کرتا تھا
تیرہ بختوں کے وہی شہر ٹھکانے ہوئے ہیں
خانۂ دل میں ابھی تک ہیں وہی لوگ آباد
جن کو اوجھل ہوئے آنکھوں سے زمانے ہوئے ہیں
تیر شاخوں میں ہیں پیوست پرندوں میں نہیں
کس شکاری کے خطا اتنے نشانے ہوئے ہیں
آب و گل ہی کا کرشمہ لب و رخسار بھی ہیں
ایسی کیا بات ہے کیوں آپ دوانے ہوئے ہیں
روز مت مانگیے مٹی کی محبت کا ثبوت
ہم تو یہ جسم اسی خاک کا چھانے ہوئے ہیں
شعر بھی لکھتا ہوں اور گھر بھی چلاتا ہوں جناب
کب کسی بوجھ کے شاکی مرے شانے ہوئے ہیں
- کتاب : Kulliyat-e-Asad Badayuni (Pg. 350)
- Author : Asad Badayuni
- مطبع : National Council for Promotion of Urdu language-NCPUL (2008)
- اشاعت : 2008
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.