خاک اڑتی رہی جلتے ہوئے پروانوں کی
خاک اڑتی رہی جلتے ہوئے پروانوں کی
شمع نے قدر نہ کی سوختہ سامانوں کی
اس قدر بھیڑ ہے اس دور میں دیوانوں کی
وسعتیں کم ہوئی جاتی ہیں بیابانوں کی
پھول گلشن میں بھلا خاک کھلائے گی بہار
دھجیاں اس کو ملیں گی جو گریبانوں کی
منزل دار سے آگے بھی گئے ہیں اکثر
ہمتیں تم نے بڑھائی ہیں جو دیوانوں کی
مہر و ماہ غنچہ و گل بھی ہیں بہت خوب مگر
ان سے رنگین ہے سرخی مرے افسانوں کی
دست تخریب سے تعمیر کا ملتا ہے پتہ
ناز کرتی ہے خرد عقل پہ دیوانوں کی
جرأتیں خوب بڑھائی ہیں سفینے والو
ناخداؤں نے ابھرتے ہوئے طوفانوں کی
ہم تک اے دست جنوں اذن بہار آئے تو
خیر دامن کی رہے گی نہ گریبانوں کی
جب مورخ کوئی تاریخ چمن لکھے گا
داستاں برق کہے گی مرے افسانوں کی
عظمت کعبہ سمجھتا ہے زمانہ جس کو
ایک رنگین سی تصویر ہے بت خانوں کی
اے وکیلؔ ابھرے گا جب ذوق رہائی کا جنوں
بات رہ جائے گی زنداں میں نگہبانوں کی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.