خاکساری کیجئے یا شہریاری کیجیے
خاکساری کیجئے یا شہریاری کیجیے
ہم غریبوں میں کچھ اپنا فیض جاری کیجیے
جن سے کچھ حاصل نہیں تعبیر خواہی کے سوا
ایسے خوابوں میں بسر کیوں رات ساری کیجیے
جو ہمارا حال ہے اس سے الگ ان کا نہیں
ساکنان شہر سے کیا پردہ داری کیجیے
آپ جو کہتے ہیں وہ کرتے نہیں معلوم ہے
پیار کر سکتے نہیں باتیں تو پیاری کیجیے
آئیں بھی تشریف لے آئیں یہی دستور ہے
بیٹھ کر میرے سرہانے غم گساری کیجیے
چوم کر ہم چھوڑ دیں گے یہ گماں سچا نہیں
آپ اپنی چاہ کا پتھر نہ بھاری کیجیے
ہم یوں ہی مر جائیں گے کافی ہے اشارہ آپ کا
آنکھ کو خنجر نہ ابرو کو کٹاری کیجیے
کشتگان خنجر تسلیم کہلاتے ہیں کیوں
کچھ تڑپ دکھلائیے کچھ بے قراری کیجیے
ہم برے ہیں یا بھلے محسوس خود کو بھی نہ ہو
تھوڑی اپنے آپ سے بھی ہوشیاری کیجیے
سرکشان عشق پھر آمادۂ فریاد ہیں
پھر کوئی فرمان قتل عام جاری کیجیے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.