خاکساری سے یہاں تک مرتبہ اونچا ہوا
خاکساری سے یہاں تک مرتبہ اونچا ہوا
دیدۂ گردوں کی پتلی خاک آگ کا پتلا ہوا
ہوں طلسم رنگ و بو کے پھیر میں بھولا ہوا
آدمی بندہ بشر ہے کیا کروں دھوکا ہوا
اک پیالہ تھا خرابات ازل کا آسماں
وہ بھی اپنی گردش قسمت سے ہے الٹا ہوا
یہ خموشی ہے گزر گاہ جہاں میں الاماں
کوئی کچھ کہتا نہیں آتا ہوا جاتا ہوا
عالم نیرنگ کی رنگینیاں ہیں دل فریب
اور بھی وہ رنگ لایا رنگ جو پھیکا ہوا
موج رحمت حوض کوثر کے کنارے لے گئی
میکشوں کا گلشن فردوس میں میلہ ہوا
آتش خاموش کے مانند تھا پہلو میں دل
ان کے دامن کی ہوا لگتے ہی انگارا ہوا
مست آنکھیں دیکھ کر کیفیؔ کی مت جاتی رہی
کون میخانے میں اس سے بڑھ کے متوالا ہوا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.