خالی ہاتھوں سے لوٹ کر جانا
کتنا مشکل ہے ایسے گھر جانا
اچھا ہوتا ہے آدمی کے لیے
بعض اوقات تھوڑا ڈر جانا
شک دلائے گا سب کو پھولوں پر
باغ میں تتلیوں کا مر جانا
جھوٹے وعدے کیے ہیں لوگوں نے
ایک دو بار تم بھی کر جانا
اس نے سایہ ہمارا چھین لیا
ہم نے جس شخص کو شجر جانا
ساری دنیا یہی تو کرتی ہے
تم بھی ہنستے ہوئے گزر جانا
آسماں کا چلن درست نہیں
اس بلندی سے تم اتر جانا
اس کے بازو بڑے کشادہ ہیں
اے مرے دل ذرا بکھر جانا
اچھا لگتا ہے پیار میں تیرے
باتوں باتوں میں یوں مکر جانا
تو پلٹ آیا پر نہیں ممکن
تیرے شاعر کا اب سدھر جانا
کوئی اچھا شگن نہیں بھائی
ریت سے جھیل کا یہ بھر جانا
ہاتھ تب کاٹنے کا سوچا گیا
جب دعاؤں کو بے اثر جانا
میں بہت اعتبار کرتا ہوں
تم کوئی گھات ہی نہ کر جانا
تیرے رخ کے سبب ہوا ممکن
پھول کا اس طرح نکھر جانا
کوئی تقلید کے نہیں قابل
تم فقط اپنے آپ پر جانا
کر گیا شل مری سماعت کو
تیرا خاموشی سے گزر جانا
اب میں آرام کرنا چاہوں گا
آخری وار ہو تو کر جانا
ساتھ اپنے بھی ہم رہے عاطفؔ
ہم نے خود کو نہیں مگر جانا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.