خالی ہیں جتنے جام وہ بھر جانے دیجیے
خالی ہیں جتنے جام وہ بھر جانے دیجیے
تشنہ لبی کا دور گزر جانے دیجیے
پھر چھیڑیے گا آپ بھی وعدہ شکن کی بات
دل کا ہر ایک زخم تو بھر جانے دیجیے
اس کی مسافتوں کی ہوئیں منزلیں تمام
نکلا ہوا ہے صبح کا گھر جانے دیجیے
جوش جنوں میں شوق سے پتھر اٹھائیے
عقل و خرد کو حد سے گزر جانے دیجیے
وعدے پہ جیتے جیتے ہی عمریں گزر گئیں
طول شب فراق کا ڈر جانے دیجیے
جس میں سرور ہے نہ حرارت نہ ولولہ
بہتر ہے ایسے جینے سے مر جانے دیجیے
ذہنوں پہ بن کے بوجھ نہ رہ جائے زندگی
آنکھوں میں بن کے خواب بکھر جانے دیجیے
یادوں کے سارے زخم نہ ہو جائیں مندمل
بسملؔ کوئی تو زخم ابھر جانے دیجیے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.