خانہ بدوش رہنے کی عادت نہیں گئی
خانہ بدوش رہنے کی عادت نہیں گئی
انساں کے دل سے خواہش ہجرت نہیں گئی
در در کی خاک چھان رہے ہیں ابھی تلک
دل سے حیات آشنا وحشت نہیں گئی
کچھ پرخلوص دوست میسر ہیں اس لیے
آنکھوں سے خوش گمانی کی عادت نہیں گئی
جب تک نفس میں صبر و قناعت تھے خیمہ زن
گھر سے ہمارے رزق کی برکت نہیں گئی
لمحہ بہ لمحہ ٹوٹتے رہنے کے باوجود
کہسار خوش جمال کی رفعت نہیں گئی
صد شکر سن رہا ہوں میں اب بھی صدائے وقت
اس شور میں بھی میری سماعت نہیں گئی
مرجھا گیا کتاب میں رکھا ہوا یہ پھول
لیکن ہنوز اس کی لطافت نہیں گئی
دامان چشم شوق لہو سے ہے تر بہ تر
آنکھوں سے پھر بھی خواب کی چاہت نہیں گئی
پگڑی بتا رہی ہے کہ سر پر غرور سے
کوتاہ قامتی کی علامت نہیں گئی
اس کو زمیں بھی چاہئے وہ بھی کفن کے ساتھ
مر کر بھی آدمی کی ضرورت نہیں گئی
اس بار سیل اشک ندامت کے ساتھ رازؔ
آنکھوں سے روشنیٔ ندامت نہیں گئی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.