خار کو پھول کہیں زہر کو پھل لکھنا ہے
خار کو پھول کہیں زہر کو پھل لکھنا ہے
دل کی تختی پہ ترا نام غزل لکھنا ہے
پہلے لکھنا ہے ترے پیار کو صہبائے جنوں
پھر اسے دشت معانی میں سرل لکھنا ہے
زیست کے باب میں دردوں کی نمائش کے لیے
زخم کو داغ کہیں آج کو کل لکھنا ہے
آنکھ کے نقش پہ اک خواب سجا کر تیرا
دل جو ویراں ہے اسے تاج محل لکھنا ہے
ذہن کے در پہ اداسی کی سیاہی بھر کر
اپنے جیون کو مجھے جام اجل لکھنا ہے
فکر جب دل کے مراکز سے نمو پا جائے
پھر مجھے برف کو آگ آگ کو جل لکھنا ہے
روح کے پیچ بھی کھلنے نہیں پاتے ہیں کبھی
اس پہ یہ فکر کہ ارماں کو جدل لکھنا ہے
میں نمٹ آیا ہوں بے مہریٔ یاراں سے کہ اب
سب کی رنجش کو مکافات عمل لکھنا ہے
عشق اک آگ سیہ ریز ہے اس میں کاوشؔ
دم بہ دم کھل کے مجھے خود کو کنول لکھنا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.