خاشاک سے خزاں میں رہا نام باغ کا
ورنہ تو ہر درخت پہ قبضہ ہے زاغ کا
حیرت ہے سب تلاش پہ اس کی رہے مصر
پایا گیا سراغ نہ جس بے سراغ کا
ہے ارتکاز ذات میں وقفہ ذرا سی دیر
ٹوٹا نہیں ہے رابطہ لو سے چراغ کا
کب کس پہ مہربان ہو اور کب الٹ پڑے
کس کو یہاں پتا ہے کسی کے دماغ کا
ہوتا ہے پھر وہ اور کسی یاد کے سپرد
رکھتا ہوں جو سنبھال کے لمحہ فراغ کا
مشق سخن میں دل بھی ہمیشہ سے ہے شریک
لیکن ہے اس میں کام زیادہ دماغ کا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.