کھڑے ہیں سامنے احباب اجگروں کی طرح
کھڑے ہیں سامنے احباب اجگروں کی طرح
بلا رہا ہے بیاباں کھلے دروں کی طرح
سبک خرام تناظر مقدروں کی طرح
فراز وقت پہ کیا ہے کٹے سروں کی طرح
وہ شخص اتنا ہی پیاسا بھی ہوگا اندر سے
ہلورے لے تو رہا ہے سمندروں کی طرح
خلا میں ڈوب نہ جاؤں کہیں مہک بن کر
مجھے سمیٹ لو آنکھوں میں منظروں کی طرح
شکست خواب کی آواز بازگشت ہوں میں
مجھے سنبھل کے برتنا محاوروں کی طرح
نہ جانے کون ہے خالق ان آبگینوں کا
خیال ذہن میں آتے ہیں پیکروں کی طرح
اب اور ہی کوئی دنیا مجھے عطا فرما
بساط دشت بھی محدود ہے گھروں کی طرح
اماں ملے گی مجھے بحر و بر میں جانے کہاں
گرا ہوں ٹوٹ کے اڑتے ہوئے پروں کی طرح
جھنجھوڑ مت مجھے ایسے میں کرب نیم شبی
نوائے میرؔ بھی چبھتی ہے نشتروں کی طرح
کمال عصر ہے بے چہرگی مگر حیرتؔ
سخنوروں سے تو ملیے سخنوروں کی طرح
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.