خیر اندیش بنے حق کی مذمت نہ کرے
خیر اندیش بنے حق کی مذمت نہ کرے
خون اپنا ہے تو اپنوں سے بغاوت نہ کرے
ریشم و اطلس و کم خواب میں پلنے والا
ہم فقیروں سے الجھنے کی حماقت نہ کرے
بے وفائی کا اگر حسن کی کھل جائے بھرم
کوئی بھولے سے بھی اقرار محبت نہ کرے
ایسے آئین کو ٹھکرا کے چلا جاؤں گا
بے نواؤں کی جو پر زور حمایت نہ کرے
پس اسی شکل میں دونوں کی گزر سکتی ہے
میں بھی شکوہ نہ کروں تو بھی شکایت نہ کرے
مجھ کو تنہائی کے زنداں میں مقید کر دو
جب تلک آپ کا احساس ملامت نہ کرے
ناخدا سوچ ذرا ڈوب کے گہرائی میں
بغض کی لہر اٹھے اور شرارت نہ کرے
رشتۂ مہر و وفا اور بھی مضبوط کرو
تاکہ انساں کسی انسان سے نفرت نہ کرے
یوں نہ کھیلو مرے جذبات سے تم شام و سحر
میں ہوں دیوانہ مجھے کوئی نصیحت نہ کرے
سبز گنبد کی گھنی چھاؤں جو ہو جائے نصیب
مفتیؔٔ شہر کبھی خواہش جنت نہ کرے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.