خیر گزری تری نظر نہ ہوئی
خیر گزری تری نظر نہ ہوئی
میری دنیا تہ و زبر نہ ہوئی
راہ تکتے تمام عمر کٹی
شام غم کی ابھی سحر نہ ہوئی
مجھ کو تڑپا کے خود تڑپتے ہو
بیکلی میری بے اثر نہ ہوئی
ہنستے ہنستے ہی پی لئے میں نے
آنکھ اشک الم سے تر نہ ہوئی
کیسے سامان عیش جمع کئے
موت سر پر تھی یہ خبر نہ ہوئی
لاکھ چاہا کہ ضرب غم سے بچوں
کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی
موسم گل تو بارہا آیا
شاخ دل میری بارور نہ ہوئی
خوف تھا قبر کا قیامت کا
دل کو تسکین عمر بھر نہ ہوئی
لگ گئی عمر خضر کیا اس کو
کیوں شب ہجر مختصر نہ ہوئی
وہ مزے کیا ہیں جو ادھر نہ اڑے
وہ خلش کیا ہے جو ادھر نہ ہوئی
اس قرینے سے دے دیا تو نے
لینے والے کو کچھ خبر نہ ہوئی
ہے خطا دل کو ٹھیس پہنچانی
یہ خطا مجھ سے بھول کر نہ ہوئی
میں نے دیکھے عیوب اوروں کے
حال خود پر مری نظر نہ ہوئی
آزمائش قدم قدم پر تھی
عشق کی راہ بے خطر نہ ہوئی
خوب تھے شعر تو ستائش کی
مجھ سے ناقدریٔ ہنر نہ ہوئی
کیا گئے ساتھ آفتاب گیا
وہ نہ آئے ابھی سحر نہ ہوئی
جس طرح کاٹنی تھی اے برترؔ
اس طرح زندگی بسر نہ ہوئی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.