خیر سے زیست کا اے کاش ہو انجام ابھی
دلچسپ معلومات
ستمبر1951
خیر سے زیست کا اے کاش ہو انجام ابھی
وقت اچھا ہے زباں پر ہے ترا نام ابھی
ہاں لبالب تو ہے لبریز نہیں جام ابھی
ضبط میں ہے اثر گردش ایام ابھی
وہ نہیں ہیں تو نگاہوں میں ہے دنیا اندھیر
کیسے روشن تھے منور تھے در و بام ابھی
یہی سمجھیں گے محبت کو حیات جاوید
جو سمجھتے ہیں اسے موت کا پیغام ابھی
بے نیازیٔ تمنا کہ ہے اک جنت عشق
دل نے پایا نہیں فطرت سے یہ انعام ابھی
تا بہ معراج یقیں دیکھیے کب تک پہنچوں
دل کی گہرائیوں میں ہیں بہت اوہام ابھی
عازم بارگہہ دوست تھا مانیؔ لیکن
کیا پہنچتا کہ ہے سر بر در اصنام ابھی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.