خلائے فکر کا احساس ارض فن سے ملا
خلائے فکر کا احساس ارض فن سے ملا
برہنگی میں نیا لطف پیرہن سے ملا
قدم قدم پہ اگے زخم آرزو بھی ہزار
ہزار رنگ تماشا بھی اس چمن سے ملا
بڑھا کے ہاتھ کہیں الجھنیں ہی چھین نہ لیں
وہ جام بھی جو مجھے شام انجمن سے ملا
سحر کو بے کھلی کلیوں میں ڈھونڈھتی ہے کرن
جو لطف جلوہ لجائی ہوئی دلہن سے ملا
اسی کے سوگ میں بیٹھا ہوا ہوں مدت سے
جو ایک زخم رفیقان ہم وطن سے ملا
غرور خوش نظری نازش عقیدہ و رنگ
ہزار روگ اسی زعم ما و من سے ملا
ہجوم یاس میں تہذیب نفس کا آہنگ
تری ہی نرم خرامی کے بانکپن سے ملا
وہ حوصلہ جو نئی راہ کی تلاش میں ہے
گلی گلی میں بھٹکتی ہوئی کرن سے ملا
ہر ایک حال میں جینے کا جگمگانے کا شوق
اندھیری شب میں ستاروں کی انجمن سے ملا
اشارہ فکر کو مہمیز حشر پرور کا
خطا معاف ہو تیرے ہی بانکپن سے ملا
اب اس شعور کو محصور ذات کیسے کروں
شعور ذات کہ زیدیؔ بڑے جتن سے ملا
- کتاب : Nasiim-e-Dasht-e-Aarzoo (Pg. 31)
- Author : Ali jawad Zaidi
- مطبع : Ali jawad Zaidi (1982)
- اشاعت : 1982
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.