خلا میں ہو ارتعاش جیسے کچھ ایسا منظر ہے اور میں ہوں
خلا میں ہو ارتعاش جیسے کچھ ایسا منظر ہے اور میں ہوں
یہ کرب تخلیق کا دھواں ہے جو میرے اندر ہے اور میں ہوں
ہزار رنگوں میں اپنی لہروں پہ شام ابھرتی ہے ڈوبتی ہے
چہار اطراف آئینہ ہیں وہ زلف ابتر ہے اور میں ہوں
مرے سوا کچھ نہیں کہیں بھی ازل ابد ایک خواب مستی
زمیں قدم بھر ہے میرے نیچے فلک نگہ بھر ہے اور میں ہوں
سیاہ گرداب سی خلا میں کسی کو تو ڈوبنا ہے آخر
سفر کا ساتھی بس اک ستارہ مرے برابر ہے اور میں ہوں
مجھے خبر ہے کہ رمزؔ کتنی سماعتیں زخم زخم ہوں گی
لہو کی ہیں کچھ حکایتیں اور زبان خنجر ہے اور میں ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.