خسارہ در خسارہ کر لیا جائے
جنوں کو استعارہ کر لیا جائے
یہ نقطہ بھی قرین مصلحت ہے
عداوت کو گوارہ کر لیا جائے
درون دل یم افسردگی ہے
کوئی تنکا سہارا کر لیا جائے
سخن ہائے برائے گفتنی سے
غزل کو شاہپارہ کر لیا جائے
سر آب رواں صحرا بچھا کر
سرابوں سے کنارہ کر لیا جائے
ضیا آنکھوں کی پتلی میں سمو کر
اندھیرے کا نظارہ کر لیا جائے
بھلا کیا کھیل ہے کار محبت
جو دانستہ دوبارہ کر لیا جائے
یہ دل میں ہے کہ سارے اشک پی کر
بدن کو مٹی گارا کر کیا جائے
بسانی ہے کوئی بستی کہ صحرا
علیؔ اب استخارہ کر لیا جائے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.