خستہ ہیں اذیت میں ہیں بیمار بہت ہیں
خستہ ہیں اذیت میں ہیں بیمار بہت ہیں
کچھ دن سے تو ہم خود سے بھی بیزار بہت ہیں
بے کیف اداسی میں ڈھلے خواب سہانے
تعبیر کے لمحوں کے طلب گار بہت ہیں
گلزار میں خاروں پہ گرے اشک سحر کے
شبنم کے مقدر میں بھی آزار بہت ہیں
وہ دل سے نگینے کو پرکھ ہی نہیں سکتے
اب جوہری کم کم ہیں خریدار بہت ہیں
بنیاد میں نفرت کی کہیں اینٹ لگی ہے
دیوار کے گر جانے کے آثار بہت ہیں
دو رنگ محبت میں گوارا نہیں کرتے
ہم لوگ اصولوں میں وضع دار بہت ہیں
اے عشق پڑاؤ پہ کہیں دم نہ نکل جائے
اے چارہ گرو راستے دشوار بہت ہیں
درویش نہیں کوئی صفیؔ شہر ہوس میں
ویسے تو یہاں صاحب دستار بہت ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.