خط زیست میں کوئی جست ہے یہی رقص ہے
خط زیست میں کوئی جست ہے یہی رقص ہے
یہ جہان سوچوں میں مست ہے یہی رقص ہے
یہ بدن گلاب ہے جبر کا کسی صبر کا
مرا عزم گردش ہست ہے یہی رقص ہے
وہ جو نوک خار پہ جم گئے کہیں تھم گئے
یہ جو رخت دل میں الست ہے یہی رقص ہے
یہ سلامتی کہیں ٹوٹ کر کہیں پھوٹ کر
مگر اب تو فتح شکست ہے یہی رقص ہے
کسی جنگ میں کسی رنگ میں کسی سنگ میں
اک عجیب سا در و بست ہے یہی رقص ہے
بڑی چاشنی سی ہے زہر میں کسی لہر میں
یہ بدن تو زخم پرست ہے یہی رقص ہے
میں رکا نہیں کسی راہ میں نہ پناہ میں
مری جنگ دست بدست ہے یہی رقص ہے
میں وجود پل کے جمال میں کسی حال میں
مرا نام چودہ اگست ہے یہی رقص ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.