خط اس نے زمانہ ہوا لکھا بھی نہیں ہے
خط اس نے زمانہ ہوا لکھا بھی نہیں ہے
وہ روٹھ گیا مجھ سے ہو ایسا بھی نہیں ہے
کیوں تلخ بتایا ہے اسے حضرت واعظ
جس مے کو کبھی آپ نے چکھا بھی نہیں ہے
وہ شخص ہوا ہے مری بستی کا محافظ
جس شخص کی تقدیر میں صحرا بھی نہیں ہے
اچھا ہوا فنکاروں نے دوکان بڑھا دی
اس شہر میں اب دیدۂ بینا بھی نہیں ہے
جاتے ہیں کہاں اٹھ کے ذرا بیٹھیے صاحب
جی بھر کے ابھی آپ کو دیکھا بھی نہیں ہے
ہر راہ میں روشن ہیں چراغوں کی قطاریں
یہ غور طلب ہے کہ اجالا بھی نہیں ہے
احباب مرے جس طرح پیش آئے ہیں مجھ سے
دشمن کے لئے میں نے تو سوچا بھی نہیں ہے
یہ حادثے جائیں گے کہاں چھوڑ کے مجھ کو
ان کا تو کوئی اور ٹھکانا بھی نہیں ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.