ختم راتوں رات اس گل کی کہانی ہو گئی
ختم راتوں رات اس گل کی کہانی ہو گئی
رنگ بوسیدہ ہوئے خوشبو پرانی ہو گئی
جس سے روشن تھا مقدر وہ ستارہ کھو گیا
ظلمتوں کی نذر آخر زندگانی ہو گئی
کل اجالوں کے نگر میں حادثہ ایسا ہوا
چڑھتے سورج پر دیئے کی حکمرانی ہو گئی
رہ گئی تھی لعل بننے میں کمی اک آنچ کی
آنکھ سے گر کر لہو کی بوند پانی ہو گئی
چلۂ جاں پر چڑھا کر آخری سانسوں کے تیر
موت کی سرحد میں داخل زندگانی ہو گئی
خوف اب آتا نہیں ہے سیپیاں چنتے ہوئے
دوستی اپنی سمندر سے پرانی ہو گئی
کس جگہ آیا ہے تو آنکھوں کے نیلم بھول کر
غم کہاں اقبال ساجدؔ کی نشانی ہو گئی
- کتاب : kulliyat-e-iqbaal saajid (Pg. 187)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.